Tuesday 23 April 2013

پروانہ ردولوی کی یاد میں

شمارہ یکم تا پندرہ اپریل ۲۰۱۳

پروانہ ردولوی کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

پروانہ ردولوی کا اصلی نام سید میثم تمار تھا۔ ان کی پیدائش 11نومبر 1933 کو یوپی کے مردم خیز خطے ردولی میں ہوئی تھی۔ پروانہ ان کا تخلص تھا ۔ادب اور صحافت کی دنیا میں پروانہ ردولوی کے نام سے ہی جانے گئے۔ لکھنو

¿، کانپور، دہلی اور ممبئی میں پھیلی ہوئی ان کی صحافتی زندگی بڑی بوقلمو ں اور دلچسپ ہے۔ پروانہ ردولوی ایک بے چین روح کا نام تھاجو کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹھہرتے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1950 میں یوپی اسمبلی میں رپورٹر کے طور پر کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی وہ دہلی آکر مولانا عبدالوحید صدیقی کے روزنامہ ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ بعد کو 1955 میں انہوں نے کانپور سے خود اپنا روزنامہ ’سیاست نو‘ جاری کردیا۔ جس کی اشاعت دو سال تک جاری رہی۔ 1957 میں کانپور چھوڑ کر بمبئی جابسے اور وہاں کے قدیم روزنامہ ’ہندوستان‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی ان کا دل نہیں لگا اور 1959 میں دوبارہ دہلی آکر ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1960 میں جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’دعوت‘ اور 1963 میں روزنامہ ’ملک و ملت‘ سے وابستہ رہے۔ 1968 میں لکھنو


¿جاکرمسلم مجلس کے صدر ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے روزنامہ ’قائد‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1969 میں پھر دہلی آئے اور روزنامہ ’پرتاپ‘ میں ملازمت اختیار کی۔ سب سے طویل عرصہ انہوں نے یہیں گزارا۔ یعنی 1988 تک پورے 20سال ’پرتاپ‘ میں ادارتی اور انتظامی امور سنبھالتے رہے۔ بعد ازاں ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوئے۔ 1990 میں شاہد صدیقی کی زیر ادارت روزنامہ ’عوام‘ میں ایگزیکیٹو ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

پروانہ ردولوی ایک عمدہ صحافی، ادیب اور شاعر تھے۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں، جن میں اردو صحافت کا استغاثہ، افسانوی مجموعہ ’جونک‘، نجات کا راستہ اور اپنے ہم عصر ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’ہو بہ ہو‘ قابل ذکر ہے۔ انہوں نے کئی ناول اور کربلا کے منظر نامے بھی تحریر کئے۔ انہیں دہلی اور یوپی کے علاوہ آل انڈیا میر اکادمی نے بھی اعزازات سے نوازا۔
جید صحافی پروانہ ردولوی کو زبان و بیان پر جو غیر معمولی قدرت حاصل تھی وہ کم ہی صحافیوں کا مقدر ہوتی ہے۔ پروانہ ردولوی نے نصف صدی کا طویل عرصہ اردو صحافت کی رفاقت میں گزارا اور اس کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ اردو صحافت میں بھی چار چاند لگائے۔ انہوں نے اردو کو اس دور میں ذریعہ معاش بنایا تھا، جب اس کے وسائل تو محدود تھے لیکن قارئین لا محدود۔ نہایت معمولی اجرت پر محنت سے معیاری کام کرنے کا جو ہنر ہمارے بزرگ صحافیوں میں پایا جاتا ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے صحافیوں میں موجود نہیں ہے۔
پروانہ ردولوی محنت کش اردو صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جس نے اردو صحافت کو ایک مشن اور مقصد کے طور پر اپنایا تھا۔ اس کے ذریعہ دولت بٹورنا یا اس سے حاصل ہونے والی شہرت کے بل پر خدا کی زمین پر اکڑ کر چلنا نہیںسیکھا تھا۔ پروانہ ردولوی کی نسل کے لوگوں نے اردو صحافت کو طاقت ور اور توانا بنانے کے لئے اس کی رگوں میں اپنا خون ہی نہیں دوڑایا بلکہ اس عشق میں اپنی ہڈیاں تک گھلا دیں۔
ماضی کے جھروکوں سے دیکھتا ہوں تو سن 80 کی دہائی کے وہ دن یاد آتے ہیں جب اس نو آموز طالب علم نے اردو صحافت کی سنگلاخ وادی میں قدم رکھا تھا۔ اس دور میں اردو صحافت نت نئے رنگوں سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور سفید کاغذ پر کالے یا لال رنگ کے اخبارات شائع ہوتے تھے۔ لیکن ان میں اتنی گہرائی اور گیرائی ہوتی تھی کہ انہیں محفوظ رکھنے کو جی چاہتا تھا۔ اس دور میں سلامت علی مہدی، ناز انصاری، مہدی نظمی، اختر صدیقی، وجاہت افروز، محفو ظ الرحمن، جمنا داس اختر، گربچن چندن، شاہد صدیقی اور فاروق اگلی جیسے لوگ اس دشت کے شہسواروں میں شامل تھے۔ ان میں سے جن لوگوں کی تربیت اور شفقت میں مجھے ’نئی دنیا‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سلامت علی مہدی، اختر صدیقی اور وجاہت افروز کے انتقال کے بعد اب صرف پروانہ ردولوی ہی بقید حیات تھے، جو ہمیشہ شفقت کا سلوک کرتے تھے اور درد مندی کے ساتھ کار آمد مشوروں سے نوازتے تھے۔
پروانہ ردولوی کے جس ہنر نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ کسی لغت کے بغیر وہ اتنا رواں اور سلیس ترجمہ کرتے تھے کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا تھا۔ پروانہ ردولوی کو جتنا عبور اردو پر حاصل تھا اتنے ہی کمانڈ وہ انگریزی پر بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح مضمون نگاری اور سیاسی تبصرے وتجزیے اسی قدر بے باکی سے کرتے تھے۔ انہیں نثر کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی یکساں قدرت حاصل تھی۔ موجودہ دور میں ایسے بہت کم لوگ ملیں گے جو نظم و نثر پر یکساں قدرت رکھتے ہوں۔ پروانہ ردولوی کا ہنر یہ تھا کہ وہ ادب اور صحافت کے تمام رموز اور جہتوں سے کمال درجہ کی آشنائی کے باوجود ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا ہی مظاہرہ کرتے تھے کہ یہی اعلیٰ ظرف اور اعلیٰ دماغ لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی خاکساری کا ہنر سکھایا ہے۔
موجودہ دور میں دہلی سے جو اردو اخبارات شائع ہورہے ہیں ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کی کمانیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو زبان و بیان تو کجا صحیح املا بھی نہیں لکھ سکتے۔ اس لئے اردو صحافیوں کی جو نئی نسل تیار ہورہی ہے اس کی تربیت کا کوئی نظم کہیں موجود نہیں ہے۔ آج کسی بھی اخبار میں پروانہ ردولوی جیسی صلاحیت کا کوئی صحافی نہیں ملے گا جو اردو صحافت کے نئے طالب علموں کو یہ بتا سکے کہ جملہ سازی کیسے کی جاتی ہے۔ بامحاورہ اور سلیس ترجمہ کا کیا طریقہ ہے یا اردو میں صحیح املا لکھنے کے کیا فائدے ہیں۔ اس بحران کی وجہ آج کے اردو اخباروں پر ہندی صحافت کی نہایت بے میل ترکیبوں اور الفا ظ کی اجارہ داری ہوا چاہتی ہے۔ اگر اس در اندازی کو نہ روکا گیا تو جلد ہی شمالی ہندوستان کی اردو صحافت ’بے زبان‘ ہوجائے گی۔
سن 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں ہفت روزہ نئی دنیا کو چار چاند لگانے میں جہاں استاد جناب شاہد صدیقی کی صلاحیت اور دور بیں نگاہ کا دخل تھا، وہیں اس کے صفحات پر مرحوم اختر صدیقی کی عرق ریزی، وجاہت افروز (وی دہلوی) مرحوم کی بے باک تحریریں اور پروانہ صاحب کے ترجمہ اور تبصروں کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس خاکسار نے سیاسی اور ادبی شخصیات کے انٹرویوز کے علاوہ بابری میں داخل ہونے سے لے کر اس دور کے ہولناک فسادات کی رپورٹنگ کا جو کام جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا، اسے پروانہ صاحب کی حوصلہ افزائی نے دوچند کردیا۔ وہ نہات معتبر اور کار آمد مشورے دیتے تھے، جنہیں یہ طالب علم پوری خندہ پیشانی سے قبول کرتا تھا۔پروانہ صاحب نے ہمیشہ محنت اور دقت پسندی کو اپنا شعار بنایا اور انہوں نے صحافت کو کبھی آسائشیں حاصل کرنے کا وسیلہ نہیں سمجھا۔ اسی لئے وہ عمر کے آخری حصہ تک اپنے دست و بازو پر منحصر رہے اور اسی حال میں موت کو گلے لگالیا۔ انتقال سے چند روز پہلے تک وہ پی آئی بی کے اردو یونٹ میں اسی بانکپن کے ساتھ ترجمہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور ان کے مسودے میں کہیں کوئی کانٹ چھانٹ نہیںہوتی تھی۔
پروانہ صاحب کی جان لیوا بیماری کے بارے میں برادرم تحسین منور نے جو تفصیلات بتائیں وہ مرحوم کی زندہ دلی اور خوش طبعی کی گواہی دیتی ہیں۔ برین اسٹروک سے پہلے وہ اپنے بیٹوں سے خوب ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ لطائف اور دلاورفگار کے اشعار دہرائے جاتے رہے اور ہنسی مذاق جاری رہا کہ اسی میں موقع کو غنیمت جان کر موت ان پر حملہ آور ہوئی اور وہ بھی دماغ پر۔ آخر پروانہ صاحب کا اصل اثاثہ ان کا دماغ ہی تو تھا جس میں اردو ادب، صحافت اور شاعری کے سارے رموز پوشیدہ تھے۔ پروانہ ردولوی اردو صحافت کی شمع کے ایسے حقیقی پروانے تھے کہ اب اس عشق میں خود کو جلانے والا کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوگا۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
masoom.moradabadi@gmail.com

No comments:

Post a Comment